وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
سندھ کے شہر شہداد کوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو نے کہا ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسیاں اسٹیبلشمنٹ کے تسلط کو چیلنج کرنے والی سیاسی حکومتوں کو مدت پوری نہیں کرنے دیتیں اور پاکستان میں صرف وہی حکومتیں مدت پوری کرسکتی ہیں جو ’سٹیٹس کو‘ کو نہ چھیڑیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایجنسیاں موجودہ انتخابی عمل کے دوران امیدواروں پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
بینظیر بھٹو نے یہ بات پہلی مرتبہ نہیں کہی بلکہ انیس سو اٹھاسی سے اب تک وہ درجنوں بار ایجنسیوں کے کردار پر اظہارِ خیال کرچکی ہیں۔لیکن معاملہ پھر اس شعر پر اٹک جاتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
انیس سو اٹھاسی سے آج تک ہر مرتبہ سرکردہ جماعتوں نے ایجنسیوں کی سیاسی اور انتخابی مداخلت کا واویلا بھی جاری رکھا اور پھر اسی تنخواہ پر کام کرنے پر بھی آمادہ رہیں۔
آج تو حالات پہلے سے بھی دگرگوں ہیں۔ نائب امریکی وزیرِ خارجہ رچرڈ باؤچر سے لے کر ہیومین رائٹس واچ، دولتِ مشترکہ اور یورپی یونین سمیت ہر کوئی ایک آزاد عدلیہ کی عدم موجودگی میں انتخابی مشق پر تخفظ کا اظہار کرچکا ہے۔
خود بینظیر بھٹو ایک ماہ پہلے یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ پرویز مشرف نہ تو وردی میں قبول ہیں اور نہ وردی کے بغیر۔اور یہ کہ ایک آزاد عدلیہ، خودمختار الیکشن کمیشن اور غیرجانبدار نگراں حکومت کی عدم موجودگی میں موجودہ بلدیاتی نظام کے ہوتے ہوئے انتخابات نہ تو منصفانہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی شفاف۔ مشرف حکومت نے ان میں سے بظاہر کسی خدشے کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔لہذا بہت سے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بینظیر بھٹو کی جماعت سمیت جو بھی پارٹیاں اس انتخابی سرکس کا حصہ ہیں وہ ایجنسیوں کے مبینہ کردار پر شور کیوں مچا رہی ہیں۔
کم از کم توقع یہ تھی کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے والی پیپلز پارٹی کے منشور میں بینظیر حکومت کے پہلے دور میں ایجنسیوں کے کردار کو محدود کرنے کے بارے میں قائم کردہ ذوالفقار کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد میں ناکامی کا اعتراف کر کے یہ عہد کیا جائے گا کہ اس مرتبہ اقتدار ملنے کی صورت میں ان سفارشات کو لاگو کیا جائے گا ۔تاہم خود کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہنے والی پیپلز پارٹی کا منشور اس بارے میں خاموش ہے۔
سوائے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی عمل میں شریک کسی جماعت نے کھل کر یہ وعدہ نہیں کیا کہ برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں عدلیہ کو بحال کردیا جائے گا اور ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے گا۔ عوام بھی جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ کتنے بندھے ہوئے ہیں لیکن کم ازکم وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا۔
ہوسکتا ہے کہ بیظیر بھٹو کی سوچ یہ ہو کہ اقتدار ملنے سے پہلے اس طرح کے اعلانات کرکے اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
تو کیا انہیں یہ امید ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ برما کی فوجی جنتا کی طرح اتنی بے وقوف ہے کہ وہ انکی جماعت کو دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کا انتظار کرے گی اور انہیں آنگ سان سوشی کی طرح ہیروئین بنا دے گی یا انہیں یہ امید ہے کہ آٹھ جنوری کو اگر دھاندلی ہوتی ہے تو نو جنوری کو پاکستان نیپال یا یوکرین بن جائے گا۔
موجودہ صورتحال میں جبکہ بقول بینظیر ایجنسیوں کی مداخلت بھی ہو رہی ہے انہیں ایسا کیا ملنے کی امید ہے جو انیس سو اٹھاسی یا ترانوے یا ستانوے یا دو ہزار دو میں نہیں مل پایا۔
مجھ جیسے کروڑوں لوگ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اگر آپ کو اپنے میدان میں ہاکی کھیلنے کا موقع دے تو آپ کرکٹ کیسے کھیل سکتے ہیں۔
Blogged with Flock
1 comment:
what's the difference between a dog and a bitch?? does anyone remember the london man talking about the mad dog. we don't want him to be talking about a mad bitch in a few days time
Post a Comment